آندھیوں میں دیپ جلانا ہے
ایک دو نہیں دشمن یہ سارا زمانہ ہے ،
پھوٹی تقدیر کے آگے خود کو آزمانا ہے ،
فرصت ہستی سے بے کس سا جی رہا ہوں ،
رلا کے خود کو اب خود ہی کو ھسانا ہے ،
سودے بازی میں بھی میں ایسے شکست ہوا ،
خوشیاں دے کر مجھے درد کو اپنانا ہے ،
پتھر بن کے جیسے کسی سڑک پہ آ گیا ہوں ،
تمام عمرا اب لوگوں سے ٹھوکر کھانا ہے ،
دنیاداری بھی کچھ اس طرح سے نبھانی ہے ،
آئینہ بنا ہے پر کچھ بھی نا بتانا ہے ،
ناکام سی کوشش کیوں کر رہے ہو " یوگس " ،
آندھیوں سے گھرے ہو اور دیپ جلانا ہے .
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ