اب کے تجدید وفا کا نہیں امکان جاناں

اب کے تجدید وفا کا نہیں امکان جاناں

اب کے تجدید وفا کا نہیں امکان جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں

یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انسان جاناں

زندگی تیری عطا تھی سو تیرے نام کی ہے
ہم نے جیسے بھی بسر کی تیرا احسان جاناں

دل یہ کہتا ہے کے شاید ہو افسردہ تو بھی
دل کی کیا بات کریں دل تو ہے نادان جاناں

آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں
راگ مینا سلگ اٹھی کہ راگ جان جاناں

مدتوں سے یہ عالم نا توقع نا امید
دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں

ہم بھی کیا سدا تھے ہم نے بھی سمجھ رکھا تھا
غم دوراں سے جدا ہے غم جاناں جاناں

اب کی کچھ ایسی سجی محفل یاراں جاناں
سر بہ زانو ہے کوئی سر با گریباں جاناں

ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
ہر کوئی اپنے ہی سائے سے ہراساں جاناں

جس کو دیکھو وہی زنجیر با پپ لگاتا ہے
شہر کا شہر ہوا داخل زندان جاناں

اب تیرا ذکر بھی شاید ہی غزل میں آئے
اور سے اور ہوا درد کا عنوان جاناں

ہم کے روٹھی ہوئی رت کو بھی منا لیتے تھے
ہم نے دیکھا ہی نا تھا موسم ہجراں جاناں

ہوش آیا تو سبھی خواب تھے ریزہ ریزہ
جیسے اڑتے ہوئے اوراق پریشان جاناں

Posted on Feb 16, 2011