اے وحشت دل
اے وحشت دل
سحر کی رات اور میں نشاد او ناکارہ پھروں
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
اے غم دل کیا کروں
اے وحشت دل کیا کروں
یہ روپھیلی چھاؤں اور آکاش پر تاروں کا جال
جیسے صوفی کا تصور جیسے عاشق کا خیال
آہ لیکن کون سمجھے کون جانے جی کا حال
راستے میں روک کے دم لوں یہ میری عادت نہیں
لوٹ کر واپس چلا جاؤں یہ میری فطرت نہیں
اور کوئی ہمنوا مل جائے یہ میری قسمت نہیں
اے غم دل کیا کروں
اے وحشت دل کیا کروں
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ