انداز ہو بہو تیری آواز پا کا تھا

انداز ہو بہو تیری آواز پا کا تھا

انداز ہو بہو تیری آوازپا کا تھا .
دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا .

اٹھا عجب تضاد سے انسان کا خمیر ،
عادی فنا کا تھا تو پجاری بقاء کا تھا .

اس رشتہ لطیف کے اصرار کیا کھلیں ،
تو سامنے تھا اور تصور خدا کا تھا .

ٹوٹا تو کتنے آئینہ خانوں پہ زد پڑی ،
اَٹْکا ہوا گلے میں جو پتھر صدا کا تھا .

چھپ چھپ کے رؤں اور سر انجمن ہنسوں ،
مجھ کو یہ مشورہ میرے درد آشْنا کا تھا .

دل راکھ ہو چکا تو چمک اور بڑھ گئی ،
یہ تیری یاد تھی کے عمل کیمیا کا تھا .

اس حسن اِتِّفاق پہ لٹ کے بھی شاد ہوں .
تیری رضا جو تھی ، وہ تقاضا وفا کا تھا .

حیران ہوں کے دار سے کیسے بچا ندیم ،
وہ شخص تو غریب و غیور انتہا کا تھا .

Posted on Feb 16, 2011