اپنی رسوائی تیرے نام کا چرچہ دیکھوں
ایک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں
شام بھی ہو گئی دھندلا گئی آنکھیں بھی میری
بھلانے والے میں کب تک تیرا راستہ دیکھوں
سب ضدیں اس کی میں پوری کروں ہر بات سنوں
ایک بچے کی طرح سے اسے ہنستا دیکھوں
مجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رت میں مہکتا دیکھوں
تو میری طرح سے یکتا ہے مگر میرے حبیب
جی میں آتا ہے کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں
میں نے جس لمحے کو پوجا ہے یوز بس ایک بار
خواب بن کر تیری آنکھوں میں اترتا دیکھوں
تو میرا کچھ نہیں لگتا ہے مگر جان حیات
جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکتا دیکھوں
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ