بہار آئی
تو جیسے یک بار لوٹ آئے ہیں پھر آدَم سے
وہ خواب سارے ، شباب سارے
جو تیرے ہونٹوں پہ مر مٹے تھے
جو مٹ کے ہر بار پھر جئے تھے
نکھر گئے ہیں گلاب سارے
جو تیری یادوں سے مشکبوں ہیں
جو تیرے اشاق کا لہو ہیں
بہار آئی
ابل پڑے ہیں عذاب سارے
ملال احباب دوستاں بھی
تمہارے آغوش مہوشاں بھی
غبار خاطر کے باب سارے
تیرے ہمارے سوال سارے ، جواب سارے
بہار آئی
تو کھل گئے ہیں
نئے سرے سے حساب سارے
نئے سرے سے حساب سارے
بہار آئی . . . . !
Posted on Nov 03, 2011
سماجی رابطہ