چراغ مانگتے رہنے کا کچھ سبب بھی نہیں
چراغ مانگتے رہنے کا کچھ سبب بھی نہیں
اندھیرا کیسے بتائیں کے اب تو شب بھی نہیں
میں اپنے زعم میں ایک بازیافت پر خوش ہوں
یہ واقعہ ہے کے مجھ کو ملا وہ اب بھی نہیں
جو میرے شعر میں مجھ سے زیادہ بولتا ہے
میں اس کی بزم میں ایک حرف زیر لب بھی نہیں
اور اب تو زندگی کرنے کے سو طریقے ہیں
ہم اس کے ہجر میں تنہا رہے تھے جب بھی نہیں
کمال شخص تھا جس نے مجھے تباہ کیا
خلاف اس کے یہ دل ہو سکا ہے اب بھی نہیں
یہ دستکیں یہ میری زندگی کی آدھی رات
ہوا کا شور سمجھ لوں تو کچھ عجب بھی نہیں
یہ دکھ نہیں کے اندھیروں سے صلح کی ہم نے
ملال یہ ہے کے اب صبح کی طلب بھی نہیں
حساب در بدری تجھ سے مانگ سکتا ہے
غریب شہر مگر اتنا بے ادب بھی نہیں
ہمیں بہت ہے یہ سعادت عشق کی نسبت
کے یہ قبیلہ کوئی ایسا کم نسب بھی نہیں
چراغ مانگتے رہنے کا کچھ سبب بھی نہیں
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ