دیکھنا ہے وہ مجھ پر مہربان کتنا ہے
اصلیت کہا تک ہے اور گمان کتنا ہے
کیا پناہ دیتے ہے اور یہ زمین مجھ کو
اور ابھی میرے سر پر آسمان کتنا ہے
کچھ خبر نہیں آتی کس روش پہ ہے طوفان
اور پھٹا باقی بادبان کتنا ہے
توڑ پھور کرتی ہیں روز خواہشیں دل میں
تنگ ان مکانوں سے یہ مکان کتنا ہے
حرف آرزو سن کر جانچنے لگا یعنی
اس میں بات کتنی ہے اور بیان کتنا ہے
پھر اداس کر دے گی سرسراتی جھلک اس کی
بھول کر یہ دل اس کو شادمان کتنا ہے
Posted on Sep 28, 2011
سماجی رابطہ