دل بہت اُداس ہے

دل بہت اُداس ہے

دل بہت اُداس ہے

وہ پیار گزرے وقت

کا نظر کے آس پاس ہے

وہی ہوا وہی فضا

جو تو نہیں تو کیا مزہ

کھلے تو ہیں چمن مگر

نا رنگ ہے نا بات ہے

دل بہت اُداس ہے

کہاں خلا کہاں زمین

ملیں گے ہم یقین نہیں

یہ پیار کی ہے انتہا کے

پھر بھی تیری آس ہے

دل بہت اُداس ہے

نظر نظر حکایتیں

نوازشیں عنایتیں

بہت ہے یہ میرے لیے کے

تو وفا شناس ہے

دل بہت اُداس ہے

Posted on Feb 16, 2011