ڈوب رہی ہیں سانسیں مگر یہ گمان باقی ہے
ڈوب رہی ہیں سانسیں مگر یہ گمان باقی ہے
آنے کا کسی شخص کے ابھی امکان باقی ہے
مدت ہوئی ایک شخص کو بچھڑے لیکن
آج تک میرے دل پے ایک نشان باقی ہے
وہ سائباں چھن گیا تو کوئی غم نہیں
ابھی تو میرے سر پے یہ آسْمان باقی ہے
کشتی ذرا کنارے کے قریب ہی رکھنا
بھپری ہوئی لہروں میں ابھی طوفان باقی ہے
غموں سے کہہ دو کے ابھی نا رخت سفر باندھیں
کے ابھی تو میرے جسم میں کچھ اور جان باقی ہے
جا چکے ہیں سب لوگ خاموش پڑی ہے بستی
مگر کسی آس پے ایک مکین مکان باقی ہے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ