دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نا تھا

دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نا تھا

دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نا تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نا تھا

کیا ملا آخر تجھے سایوں کے پیچھے بھاگ کر
اے دلے نادان تجھے کیا ہم نے سمجھایا نا تھا

اُف یہ سناٹا کے آہٹ تک نا ہو جس میں مخل
زندگی میں اس قدر ہم نے سکون پایا نا تھا

خوب روئے چھپ کے گھر کی چار دیواری میں ہم
حال دل کہنے کے قابل کوئی ہمسایہ نا تھا

اب کھلا جھونکوں کے پیچھے چل رہی تھیں آندھیاں
اب جو منظر ہے وہ پہلے تو نظر آیا نا تھا

صرف خوشبو کی کمی تھی غور کے قابل قتیل
ورنہ گلشن میں کوئی بھی پھول مرجھایا نا تھا

Posted on Feb 16, 2011