دکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا

دکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا

دکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا
یاد نے کنکر پھینکا ہوگا

آج تو میرا دل کہتا ہے
تو اس وقت اکیلا ہوگا

میرے چومے ہوئے ہاتھوں سے
اوروں کو خط لکھتا ہوگا

بھیگ چلیں اب رات کی پلکیں
تو اب تھک کر سویا ہوگا

ریل کی گہری سیٹی سن کر
رات کا جنگل گونجا ہوگا

شہر کے خالی سٹیشن پر
کوئی مسافر اترا ہوگا

آنگن میں پھر چڑیاں بولیں
تو اب سو کر اٹھا ہوگا

یادوں کی جلتی شبنم سے
پھول سا مکھڑا دھویا ہوگا

موتی جیسی شکل بناکر
آئینے کو تکتا ہوگا

شام ہوئی اب تو بھی شاید
اپنے گھر کو لوٹا ہوگا

نیلی دھندلی خاموشی میں
تاروں کی دھن سنتا ہوگا

میرا ساتھی شام کا تارا
تجھ سے آنکھ ملاتا ہوگا

شام کے چلتے ہاتھ نے تجھ کو
میرا سلام تو بھیجا ہوگا

پیاسی کرلاتی کنجن نے
میرا دکھ تو سنایا ہوگا

میں تو آج بہت رویا ہوں
تو بھی شاید رویا ہوگا

ناصر تیرا میت پرانا
تجھ کو یاد تو آتا ہوگا

Posted on Feb 16, 2011