فرض کرو

فرض کرو تم چھت پر بیٹھی اپنے بال سکھاتے ہو
فرض کرو کے دھوپ کا اس دن کچھ کچھ رنگ گلابی ہو
فرض کرو تم بیٹھے بیٹھے گہری سوچ میں کھو جاؤ
بال سکھانا چھوڑ کے سر گھٹنوں پہ رکھ کر سو جاؤ
فرض کرو اس نیند میں تم نے دیکھا ایسا سپنا ہو
بے کل ہو کر مین یہ چاہے کاش یہ سپنا اپنا ہو
فرض کرو تم خط لکھنے کو کاغذ قلم اُٹھاتی ہو
خط لکھنے سے پہلے کاغذ کو خوشبو خوب لگاتی ہو
فرض کرو القاب پہ آ کر قلم تمہارا رک جائے
نظر تمہاری دھک دھک کرتے دل کی جانب جھک جائے
فرض کرو ایک نام لکھو اور لکھ کر کاٹو پھر لکھو
فرض کرو سپنے افسانے خط کا نام محبت ہو
فرض کرو ہم دونوں کے دل ایک ہی ساتھ دھڑکاتے ہوں
فرض کرو یہ ساری باتیں فرض نا کرنی پڑتی ہوں . . . !

Posted on Apr 26, 2012