اس نے بھی غلاموں کی صفوں میں ہمیں رکھا

اس دل نے تیرے بعد محبت بھی نہیں کی
حد یہ کے دھڑکنے کی جسارت بھی نہیں کی

تعبیر کا اِعْزاز ہوا ہے اسے حاصل
جس نے میرے خوابوں میں شراكت بھی نہیں کی

الفت تو بڑی بات ہے ہم سے تو سر شہر
لوگوں نے کبھی ڈھنگ سے نفرت بھی نہیں کی

آدب سفر اب وہ سکھاتے ہیں جنہوں نے
دو چار قدم طے یہ مسافت بھی نہیں کی

کیا اپنی صفائی میں بیان دیتے کے ہم نے
نا کرداٍ گناہوں کی وضاحت بھی نہیں کی

خاموش تماشائی کے مانند سر بزم
سو زخم سہے دل پے ، شکایت بھی نہیں کی

اس گھر کے سب ہی لوگ مجھے چھوڑنے آئے
دہلیز تلک اس نے یہ زحمت بھی نہیں کی

اس نے بھی غلاموں کی صفوں میں ہمیں رکھا
اس دل پے کبھی جس نے حکومت بھی نہیں کی

Posted on Sep 22, 2011