خواب آنکھوں سے
خواب آنکھوں سے اب کوئی چرا کر لے جائے
قبر کے سوکھے ہوئے پھول اٹھا کر لے جائے
منتظر پھول میں خوشبو کی طرح ہوں کب سے
کوئی جھونکے کی طرح آئے اڑا کر لے جائے
یہ بھی پانی ہے مگر آنکھ کا ایسا پانی
جو ہتھیلی سے رچی مہندی چرا کر لے جائے
میں محبت سے مہکتا ہوا خط ہوں مجھ کو
زندگی اپنی کتابوں میں چھپا کر لے جائے
خاک انصاف ہے نابینا بتوں کے آگے
رات تھالی میں چراغوں کو سجا کر لے جائے
ان سے کہنا کے میں پیدل نہیں آنے والا
کوئی بادل مجھے کاندھے پہ بٹھا کر لے جائے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ