کوئی زنجیر ہو

کوئی زنجیر ہو ،

آہن کی ، چاندی کی ، روایت کی ،

محبت توڑ سکتی ہے !

یہ ایسی ڈھال ہے جس پر

زمانے کی کسی تلوار کا لوہا نہیں چلتا !

یہ ایسا شہر ہے جس میں

کسی آمر ، کسی سلطان کا سکہ نہیں چلتا !

اگر چشم تماشہ میں ذرا سی بھی ملاوٹ ہو !

یہ آئینہ نہیں چلتا

یہ ایسی آگ ہے جس میں

بدن شعلوں میں جلتے ہیں تو روحیں مسکراتی ہیں

یہ وہ سیلاب ہے جس کو

دلوں کی بستیاں آواز دے کر خود بلاتی ہیں

یہ جب چاہے کسی بھی خواب کی تعبیر مل جائے

جو منظر بجھ چکے ہوں انکو بھی تنویر مل جائے

دعا ، جو بے ٹھکانا تھی ، اسے تاثیر مل جائے

کسی رستے میں رستہ پوچھتی تقدیر مل جائے

محبت روک سکتی ہے سمے کے تیز دھارے کو !

کسی جلتے سہارے کو ، فنا کے استعارے کو !

محبت روک سکتی ہے ، کسی گرتے ستارے کو !

یہ چکنا چور آئینے کے ریزے جوڑ سکتی ہے

جدھر چاہے یہ بھاگیں موسموں کی موڑ سکتی ہے

کوئی زنجیر ہو ، اسے محبت توڑ سکتی ہے

Posted on May 07, 2011