کوئی زنجیر ہو ،
آہن کی ، چاندی کی ، روایات کی ،
محبت توڑ سکتی ہے !
یہ ایسی ڈھال ہے جس پر
زمانے کی کسی تلوار کا لوہا نہیں چلتا !
یہ ایسا شہر ہے جس میں
کسی امیر ، کسی سلطان کا سکہ نہیں چلتا !
اگر چشم تماشہ میں ذرا سی بھی ملاوٹ ہو
یہ آئینہ نہیں چلتا !
یہ ایسی آگ ہے جس میں
بدن شعلوں میں جلتے ہیں ، تو روحیں مسکراتی ہیں
یہ وہ سیلاب ہے جس کو
دلوں کی بستیاں آواز دے کر خود بلاتی ہیں
یہ جب چاہے کسی بھی خواب کو تعبیر مل جائے
جو منظر بجھ چکے ہیں ، ان کو بھی تصویر مل جائے
دعا ، جو بے ٹھکانہ تھی ، اسے تاثیر مل جائے
کسی رستے میں راستہ پوچھتی تقدیر مل جائے
محبت روک سکتی ہے سمے کے تیز دھارے کو !
کسی جلتے شرارے کو ، فنا کے استعارے کو !
محبت روک سکتی ہے کسی گرتے ستارے کو !
یہ چکنا چور آئینے کے ریزے جوڑ سکتی ہے
جدھر چاھے یہ لگام موسم کی موڑ سکتی ہے !
کوئی زنجیر ہو ، اس کو محبت توڑ سکتی ہے . . . !
کوئی زنجیر ہو اس کو محبت توڑ سکتی ہے
Posted on Mar 21, 2012
سماجی رابطہ