لبوں کی سرسراہٹ سے
بدن کے چور ہونے تک
میں تجھ کو اس طرح چاہوں کی تیری سانس رک جائے
خطائوں پر خطائیں ہوں
نا ہو کچھ بات کہنے کو
میں تجھ میں یوں سماں جاؤں کے تیری سانس رک جائے
نا ہمت تجھ میں ہو باقی
نا ہمت مجھ میں ہو باقی
مگر میں پاس یوں آؤں کے تیری سانس رک جائے
حدوں کو توڑ دینے سے
محبت کم نہیں ہوتی
تو یوں مجھ میں سمٹے کے تیری سانس رک جائے
یہ شدت اک ہونے کی
کہیں مار نا دے ہم کو
میں تجھ کو کس طرح چاہوں کے تیری سانس رک جائے
تو مجھ سے پوچھ لے جانا
گزرتی رات سے پہلے
بتائوں گا تجھے وہ سب کی تیری سانس رک جائے
تیرے ہونٹوں کو میں رکھوں
میرے ہونٹوں پہ کچھ ایسی
کے تیری پیاس بجھ جائے
یا
تیری سانس رک جائے
Posted on Oct 04, 2011
سماجی رابطہ