موج خیال
موج خیال ، ناگہاں ، آئی اور آکے لے گئی
اور نا جانیے کہاں ، مجھ کو بہا کے لے گئی
صحن ای چمن میں اب کے بھی ، رنگوں کی تھیں نمائشیں
تتلی پروں پے ، میرے کچھ شعر لکھا کے لے گئی
آنْسُو کے بوند بوند میں ، تیزابیت تھی کس قدر
ہاتھوں میں جو رچی ہوئی ، مہندی چڑھا کے لے گئی
تیغ نگاہ کر گئی ، دل کے نگر میں قتل ای عام
اور جو بچے تھے ، زلف انہیں ، قیدی بنا کے لے گئی
اب تو یقین آگیا ، ظلم مزاج تھی ہوا
گھر کی جو ساری روشنی ، شمعیں بجھا کے لے گئی
تیری گلی میں جان ای جان ، میں جو گیا نا تھا ، تو پھر
کیا کوئی سر پھری ہوا ، گھر سے اڑا کے لے گئی ؟ ؟
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ