یہی ہوا کے ہوا لے گئی اُڑا کے مجھے
تجھے تو کچھ نا ملا خاک میں ملا کے مجھے
بس ایک گونج ہے جو ساتھ - ساتھ چلتی ہے
کہاں یہ چھوڑ گئے فاصلے صدا کے مجھے
چراغ تھا تو کسی طاق ہی میں بجھا رہتا
یہ کیا کیا کے حوالے کیا ، ہوا کے مجھے
ہو ایک ادا تو اسے نام دوں تمنا کا
ہزار رنگ ہیں اس شعلہ ای حنا کے مجھے
بلند شاخ سے الجھا تھا چند پچھلے پہر
گزر گیا ہے کوئی خواب سا دکھا کے مجھے
ہزار بار کھلا ذہن بادبان کی طرح
نقش پا نا ملے عمر بعد پا کے مجھے
میں اپنی موج میں ڈوبا ہوا جزیرہ ہوں
اُتَر گیا ہے سمندر بلند پا کے مجھے . . . !
Posted on Dec 29, 2011
سماجی رابطہ