میری جان یوں نا اُداس ہو

میری جان یوں نا اُداس ہو

کہہ وہ چند لمحوں کی ان کہی

تیرے پیراہن کی رفو گری

میرے بس میں اب نا رہی تو کیا

کے میں شبد شبد تیرے پاس ہوں

تیرے سوکھے ہونٹوں کی پیاس ہوں

ہاں اُداس ہوں

وہ وعید جو تجھ سے خاص تھے

میری بے کسی کا لباس تھے

اسی دست زور و ستم نے پھر

کسی تلخ لمحے کی آنْچ میں

ہیں جلا دیے

یا بجھا دیے

میرے پاس اب بھی سراب ہیں

نئے خواب ہیں

چلو آؤ طفل امید نو

ذرا کھیل لیں

انہیں جھیل لیں . . . !

Posted on Mar 03, 2012