اسے یاد کر کے نا دل دکھا

اسے یاد کر کے نا دل دکھا

اسے یاد کر کے نا دل دکھا ، جو گزر گیا وہ گزر گیا
کہاں لوٹ کر کوئی آئے گا ، جو گزر گیا وہ گزر گیا
نئی صبح ہے نئی شام ہے نیا شہر ہے نیا نام ہے
وہ چلا گیا اسے بھول جا ، جو گزر گیا وہ گزر گیا
کوئی آئے گا کوئی جائے گا کوئی جائے گا کوئی آئے گا
سنو رستوں کی سدا سنو ، جو گزر گیا وہ گزر گیا
تیرے پاس تیرا حبیب ہے ، جو نہیں ملا وہ نصیب ہے
کوئی پھول کہتا ہے مسکرا ، جو گزر گیا وہ گزر گیا
مجھے پٹ جھڑوں کی کہانیاں نا سنا سنا کے اُداس کر
نئے موسموں کا پتہ بتا ، جو گزر گیا وہ گزر گیا
یہاں اعتبار و یقین ہے یہ حقیقتوں کی زمین ہے
ذرا دیر کا کوئی خواب تھا ، جو گزر گیا وہ گزر گیا

Posted on Feb 16, 2011