قسمت سے راہ میں جو جزیرے ہمیں ملے

رہنا تھا مجھ کو تیری نظر کے کمال میں
لیکن میں دن گزار رہی ہوں زوال میں

گھیرہ ہے اس طرح مجھے وحشت کے جال نے
سب خواب میرے ڈوب گئے اس ملال میں

مجھ سے نظر چرا کے گزارنے لگی ہوا
آنے لگی جو حجر کی خوشبو وصال میں

ہوں ساعت عذاب میں کیوں میں ابھی تلک ؟
اک عمر سے گھری ہوں اسی اک سوال میں

بے چینیا تمام ہی میں اس کی اوڑھ لوں
شامل مجھے کرے تو کبھی اپنے حال میں

میں سن رہی ہوں پھر سے جدائی کی آہٹیں
جینا پرے نا پھر سے انہی ماہ و سال میں

قسمت سے راہ میں جو جزیرے ہمیں ملے
تیرے گمان میں تھے ، نا میرے خیال میں

Posted on Aug 02, 2011