سفر میں اب کے ہوا کو بھی ہمسفر نا کروں

طلب کو اَجْر نا دوں ، فکر راہگزر نا کروں !
سفر میں اب کے ہوا کو بھی ہمسفر نا کروں

ابھرتے ڈوبتے سورج سے توڑ لوں رشتہ
میں شام اوڑھ کے سو جاؤں اور سحر نا کروں

اب اس سے بڑھ کے بھلا کیا ہو احتیاط وفا
میں تیرے شہر سے گزروں ، تجھے خبر نا کروں !

یہ میرے درد کی دولت ، میری متا فراق
ان آنسوؤں کی وضاحت میں عمر بھر نا کروں !

اجڑ شب کی خلش بن کے میں کھو جاؤں
میں چاندنی کی طرح خود کو در بدر نا کروں !

وہ ایک پل کو دکھائی تو دے کہیں محسن
میں جان گنوا کے بھی اس پل کو مختصر نا کروں . . . !

Posted on Jan 09, 2012