شفق کی جھیل میں جب سنگ آفتاب گرے ،
ہمارے گھر پہ سیاہ رات کے عذاب گرے ،
کہیں تو گردش ایّام تھک کے سانس بھی لے ،
کبھی تو خیمہ افلاک کی تناب گرے ،
کسی کے رائیگاں اشکوں کا کچھ حساب تو کر ،
فلک سے یوں تو ستارے بھی بے حساب گرے ،
کہیں تو سلسلہ انتظار ختم بھی ہو ،
کسی طرح تو یہ دیوار اضطراب گرے ،
غزل کے روپ میں وہ رو برو جو ہو محسن ،
لبوں سے لفظ اڑیں ہاتھ سے کتاب گرے . . . !
Posted on Jul 24, 2012
سماجی رابطہ