تیرا ہے
میری نگاہ کا حاصل جمال تیرا ہے
کے اِس غزل میں سراسر خیال تیرا ہے
یہ آج میرا لکھا دے رھا ہے جو خوشبو
نهیں ہے اِس میں میرا کچھ کمال ، تیرا ہے
مجھے ہے فکر تیری ، میں چلو بھلا دوں گا
تو کیسے بھول سکے گا سوال ، تیرا ہے
کروں میں لاکھ جتن پر نکل نهیں پاتا
مجھے جکڑ کے جو رکھتا ہے جال ، تیرا ہے
کہا ہے دل نے میرے آج مجھ سے یہ تنہا
صنم ہیں سب کے مگر بے مثال ، تیرا ہے . . . . . !
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ