تیری خاطر ترے اسباب کو چھوڑ آیا ہوں
یہ جو مَیں منبر و محراب کو چھوڑ آیا ہوں
لوٹنے کی کوئی صُورت ہی نہیں ہے اب تو
َمیں ترے خواب میں ہر خواب کو چھوڑ آیا ہوں
اُس کی لَو کیسے مرے ساتھ لگی چلتی ہے
جو دِیا پچھلے کسی باب میں چھوڑ آیا ہوں
اے ستارے تُو خسارے میں اکیلا تو نہیں
تُجھ سے پہلے کسی مہتاب کو چھوڑ آیا ہوں
مُجھے زرخیز بنانی تھی وُہ بنجر مٹّی
اپنے اندر ترے سیلاب کو چھوڑ آیا ہوں
اس سے پہلے کہ کوئی اور نکالے مُجھ کو
خُود ہی مَیں حلقہ احباب کو چھوڑ آیا ہوں
اب مُجھے حُکم ہے وحشت کی امامت کا رضا
صف لپیٹی ہے اور آداب کو چھوڑ آیا
Posted on Jan 19, 2013
سماجی رابطہ