تمہیں بھی عشق کرنے کے ہنر آنے لگے ہیں

تمہیں بھی عشق کرنے کے ہنر آنے لگے ہیں
تو کیا اب خواب دن میں بھی نظر آنے لگے ہیں ؟

نا آنکھیں دیکھ سکتی ہیں نا ہاتھوں کی پہنچ ہے
یہ کیسے اب کے پیڑوں پر ثمر آنے لگے ہیں

تمہیں کہتا نہیں تھا خاک میں تاثیر بھی ہے
ادھر دیکھو مسافر لوٹ کر آنے لگے ہیں

بساط آسْمان سے اب میری جانب ستارے
صف سیارہ گا کو توڑ کر آنے لگے ہیں

بیابان پاؤں سے لپٹی ہوئے ہیں گرد ہو کر
ہمیں در پیش یہ کیسے سفر آنے لگے ہیں

ابھی تو کوئی آبادی کی صورت بھی نہیں ہے
ابھی سے بستیوں میں نوحہ گر آنے لگے ہیں

ابھی تو ملنے کی ساعت سلیم آئی نہیں ہے
ابھی سے دل میں کیسے کیسے ڈر آنے لگے ہیں

Posted on Sep 16, 2011