انکی آنکھوں میں وہ اشارے نا رہے

انکی آنکھوں میں وہ اشارے نا رہے

پاس ہوکر بھی وہ ہمارے نا رہے


بیچ منجدھار لا کے وہ تو چلے

کوئی امید اور کنارے نا رہے

وہ ہی درگا وہی میری جنت ہیں

گیت بن گئے شکوہ ، دعا نا رہے

جو دھڑکنوں میں جھلمل دے خوشی بن کر

وقت کی گردشوں میں آج ستارے نا رہے

چاھ سینے میں لب پہ آہ لیے

کیا کہیں ہم بہانے نا رہے . . . !

Posted on May 14, 2012