اُسے اپنے فردا کی فکر تھی
اُسے اپنے فردا کی فکر تھی
وہ جو میرا واقف حال تھا
وہ جو اس کی صبح عروج تھی
وہی میرا وقت زوال تھا
میرا حال کیسے جانتا
میری بات کیسے مانتا
وہ تو خود فنا کے سفر پے تھا
اسے روکنا بھی محال تھا
وہ لوٹا تو صدیوں کے بعد بھی
میرے لب پے کوئی گلہ نا تھا
اُسے میری چپ نے رلا دیا
جسے گفتگو میں کمال تھا
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ