وہ ابر تھے کہ برس کر بھی رات بھر نہ کُھلے

وہ ابر تھے کہ برس کر بھی رات بھر نہ کُھلے
سحر ہوئی بھی مگر روشنی کے در نہ کُھلے

میں موج موج سے لپکا بھی ساحلوں کی طرف
بندھے ہوئے تھے بدن سے جو وہ بھنور نہ کُھلے

بھرے ہجوم میں تنہا بس ایک میں ہی تو تھا
میرے ہی ساتھ فقط میرے ہم سفر نہ کُھلے

میں جان کر بھی اُسے، بڑھ رہا ہوں اُسکی طرف
سراب دیکھ کے بھی چشمِ بے خبر نہ کُھلے

بدن جلاتی رہی خشک شاخ کی چھاؤں
بہار بیت گئی ، جوہرِ شجر نہ کُھلے

عقاب دیکھ کے پتھرا گیا میں اُڑتے ہوئے
زمیں پہ ٹوٹ گیا، گِر کے میرے پر نہ کُھلے

زمیں پہ بیٹھ گیا ہوں میں آشیاں لے کر
میرے لیے تو کہیں بازوئے شجر نہ کُھلے

مگر بندھی ہی رہی کوہِ سبز کی گٹھڑی
جھلستے پاؤں چھاؤں کے یہ سفر نہ کُھلے

وہ سامنے میرے بھیگا ہوا کھڑا ہے عدیم
کچھ اور دیر ابھی کاش چشمِ تر نہ کُھلے

Posted on May 19, 2011