آنکھوں نے کیسے خواب تراشے ہیں ان دنوں
دل پر عجیب رنگ اُترتے ہیں ان دنوں
رکھ اپنے پاس اپنے ماہ و مہر اے فلک
ہم خود کسی کی آنکھ کے تارے ہیں ان دنوں
دست سحر نے مانگ نکالی ہے بار ہاں
اور شب نے آکے بال سنوارے ہیں ان دنوں
اس عشق نے ہمیں ہی نہیں معتدل کیا
اس کی بھی خوش مزاجی کے چرچے ہیں ان دنوں
اک خوشگوار نیند پہ حق بن گیا میرا
وہ رت جاگے اس آنکھ نے کاٹے ہیں ان دنوں
وہ قحط حسن ہے کے سبھی خوش جمال لوگ
لگتا ہے کو قاف پہ رہتے ہیں ان دنوں
Posted on Aug 22, 2011
سماجی رابطہ