اس ڈھب سے کیا کیجیے

اس ڈھب سے کیا کیجیے ملاقات کہیں اور
دن کو تو ملو ہم سے، رہو رات کہیں اور

کیا بات کوئی اُس بتِ عیّار کی سمجھے
بولے ہے جو ہم سے تو اشارات کہیں اور

اس ابر میں پاؤں مَیں کہاں دخترِ رز کو
رہتی ہے مدام اب تو وہ بد ذات کہیں اور

گھر اُس کو بُلا، نذر کیا دل تو وہ جرأت
بولا کہ یہ بس کیجے مدارات کہیں اور

Posted on Nov 17, 2012