آخری ٹیس آزمانے کو

آخری ٹیس آزمانے کو
جی تو چاہا تھا مسکرانے کو

یاد اتنی بھی سخت جان تو نہیں
اک گھروندہ رہا ہے دھانے کو

سنگ ریزوں میں ڈھل گئے آنسو
لوگ ہنستے رہے دکھانے کو

زخم نغمہ بھی لو تو دیتا ہے
اک دیا رہ گیا جلانے کو

جلانے والے تو جل بجھے آخر
کون دیتا خبر زمانے کو

کتنے مجبور ہو گئے ہونگے
ان کہی بات منه پہ لانے کو

کھل کے ہنسنا تو سب کو آتا ہے
لوگ ترستے رہے اک بہانے کو

ریزہ ریزہ بکھر گیا انسان
دل کی ویرانیاں جتانے کو

حسرتوں کی پناہ گاہوں میں
کیا ٹھکانے ہیں سر چھپانے کو

ہاتھ کانٹوں سے کر لیے زخمی
پھول بالوں میں اک سجانے کو

آس کی بات ہو کی سانس ’ ادا ’
یہ کھلونے ہیں ٹوٹ جانے کو

Posted on Feb 16, 2011