برف جیسے لمحوں کو دی ہے مات پھر میں نے
دِل میں درد سُلگایا، آج رات پھر میں نے
صُبح کے درِیچے میں جھانک اے شبِ ہِجراں
کر دِیا تُجھے ثابت، بے ثبات پھر میں نے
کیا کِسی نے دستک دی، پِھر کسی ستارے پر؟؟
رقص کرتے دیکھی ہے کائنات پھر میں نے
اُٹھ کھڑا نہ ہو یارو! پھر نیا کوئی فِتنہ
چھیڑ دی ہے محفل میں اُس کی بات پھر میں نے
شاید اِس طرح دُنیا میری رہ پہ چل نکلے
قریہ قریہ بانٹی ہے اپنی ذات پھر میں نے
بھر گیا قتیلؔ اکثر جو ستارے آنکھوں میں
چاند رات کاٹی ہے اُس کے ساتھ پھر میں نے
Posted on Nov 12, 2012
سماجی رابطہ