احباب کی فہرست میں پہلا تھا جو اک شخص

گم سم ہوا آواز کا دریا تھا جو اک شخص
پتھر بھی نہیں اب وہ ستارہ تھا جو اک شخص

شاید وہ کوئی حرف وفا ڈھونڈ رہا تھا
چہروں کو بارے غور سے پڑھتا تھا جو اک شخص

صحرا کی طرح دیر سے پیاسا تھا وہ شاید
بادل کی طرح ٹوٹ کے برسا تھا جو اک شخص

اے تیز ہوا کوئی خبر اس کے جنون کی ! !
تنہا سفر شوق پہ نکلا تھا جو اک شخص

اب آخری سطروں میں کہیں نام ہے اس کا
احباب کی فہرست میں پہلا تھا جو اک شخص

ہاتھوں میں چھپائے ہوئے پھرتا ہے کئی زخم
شیشے کے کھلونوں سے بہلتا تھا جو اک شخص

مڑ مڑ کے اسے دیکھنا چاہیں میری آنکھیں
کچھ دور مجھے چھوڑنے آیا تھا جو اک شخص

اب اس نے بھی اپنا لیے دنیا کے قرینے
سائے کی رفاقت سے بھی درتا تھا جو اک شخص

ہر ذہن میں کچھ نقش وفا چھوڑ گیا ہے
کہنے کو بھرے شہر میں تنہا تھا جو اک شخص

منکر ہے وہی اب میری پہچان کا محسن
اکثر مجھے خط خون سے لکھتا تھا جو اک شخص

Posted on Oct 29, 2011