فضول ہے ان سے یہ تمنا کے میرے غم کی دوا کریں گے
تباہی دل پے جو تُلے ہوں وہ دل کی تا ’ امیر کیا کریں گے
قدیم ایک رسم دوستی ہے مگر ہے اب بھی وہی تا ’ الوق
ستم سائے ہیں ، ستم سہیں گے ، وفا کے بدلے جفا کریں گے
نا زندگی کو سکون ملا ہے ، نا زندگی نے سکون دیا ہے
کبھی جو پہنچے اس آسْتان تک تو زندگی کا گلہ کریں گے
شریک بزم حیات تم دے تو آرزو ’ اون میں روشنی تھیں
تمہاری قربت سے دور رہ کر سکون ملا تو کیا کریں گے
کسی کو معلوم تک نا ہوگا کے ہم کو تھی آپ سے محبت
کسی کو محسوس تک نا ہوگا کچھ اس طرح ہم وفا کریں گے
متاع قلب او نظر لٹا کر اٹھائے محرومیوں کے صدمے
غم زمانہ تیری حکایت بارے مزے سے کہا کریں گے
خوشی کی ہلکی سی ایک کرن بھی دل او نظر میں نہیں ہے ذاكر
اداسیوں پر ہی آسْرا ہے کیا بھی شکوہ تو کیا کریں گے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ