کسے شوق تنہا سفر کرے

یہ مسافتیں ، راہ عشق میں
کون شہر جان کی نظر کرے
کسے شوق تنہا سفر کرے
کرے شہر فرقت کی آرزو
کون دشت ہجراں کو گھر کرے
ان راستوں پر چلا کبھی
میرے ساتھ بن کے وہ ہمسفر
جسے سمجھا شریک رہ گزر
سر راہ وہ کسی مور پر
بدلے گا منزل ، تھی کیا خبر
مجھے فاصلوں کی فکر نہیں
میرے رو - با - رو میرے خواب ہیں
وہ جو منزلیں ہیں دھواں دھواں
یہ جو بے - نشان سے ہیں راستے
میرے واسطے یہ عذاب ہیں
اب اس کے اور میرے درمیان
حائل انا کے مزاج ہیں
اسے پھر سے ملنے کی چاھ میں
اب اور چلنا مُحال ہے
کسے تیرا اتنا خیال ہے ؟
کہا کون تیرا ہے منتظر ؟
میرے دل کا مجھ سے سوال ہے ؟ …
میری چاہتوں کا یہ حال ہے
جو میرے جنون کا عروج تھا
وہی حوصلوں کا زوال ہے
جو میرے لیے تھا خوش کبھی
وہ اب باعث ملال ہے
میری بے - بسی بھی کمال ہے
نا ہی اس سے ملنے کی جستجو

نا ہی واپسی کا خیال ہے . . . !

Posted on Nov 23, 2011