کسی میں یوں ہی زوق شاعرانہ ڈھونڈ لیتے ہیں

کسی میں یوں ہی زوق شاعرانہ ڈھونڈ لیتے ہیں
چلو مل بیٹھنے کا بہانہ ڈھونڈ لیتے ہیں

سنا ہے ان دنوں اس کو تصوف سے ہے دلچسپی
تو اچھا ہے کلام عارفانہ ڈھونڈ لیتے ہیں

حقائق تلخ ہوتے ہیں یہ اک زندہ حقیقت ہے
کوئی میٹھا ، رسیلا سا فسانہ ڈھونڈ لیتے ہیں

یہ دو دن زندگی کے کٹ تو جائیں گئے مسرت میں
چلو ہم بھی کوئی سپنا سہانا ڈھونڈ لیتے ہیں

کسی کے ساتھ تو چلنا ہے آخر در بدر ہو کر
کوئی اپنی طرح کا بے ٹھکانا ڈھونڈ لیتے ہیں

انہیں شکوہ ہے شام گلستاں میں شعر کے دوران
اندھیرے میں بھی کچھ پتھر نشانہ ڈھونڈ لیتے ہیں . . . .

Posted on Nov 17, 2011