کچھ خواب سہانے ٹوٹ گئے ،
کچھ یار پرانے روٹھ گئے ،
کچھ زخم لگے تھے چہرے پر ،
کچھ اندر سے ہم ٹوٹ گئے ،
کچھ ہم تھے طبیعت کے سادہ ،
کچھ لوگ بیگانے لوٹ گئے ،
کچھ اپنوں نے بدنام کیا ،
کچھ بن افسانے جھوٹ گئے
کچھ اپنی شکستہ ناؤ تھی ،
کچھ ہم سے کنارے چھوٹ گئے . . .
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ