میں ہوں یا تو ہے ، خود سے گریزاں جیسے

میں ہوں یا تو ہے ، خود سے گریزاں جیسے ،
میرے آگے کوئی سایہ ہے ، خراماں جیسے . .

تجھ سے پہلے تو بہاروں کا ، یہ انداز نا تھا ،
پھول یوں کھلتے ہیں ، جلتا ہو گلستاں جیسے …

یوں تیری یاد سے ہوتا ہے ، اجالا دل میں ،
چاندنی میں چمک اٹھتا ہے ، بیابان جیسے . .

دل میں روشن ہے ، ابھی تک تیرے وعدوں کے چراغ ،
ٹوٹتی رات کے تارے ہو ، فروزاں جیسے . .

وقت بدلا پر ، نا بدلا میرے معیار وفا ،
آندھیوں میں ، سر کوہسار چراغاں جیسے . .

زخم بھرتا ہے زمانہ ، مگر اس طرح ،
سی رہا ہو کوئی ، پھولوں کے گریبان جیسے … … .

Posted on Feb 16, 2011