نا غبار میں نا گلاب میں مجھے دیکھنا
میرے درد کی آب و تاب میں مجھے دیکھنا
کسی وقت شام ملال میں مجھے سوچنا
کبھی اپنے دل کی کتاب میں مجھے دیکھنا
کسی دھن میں تم بھی جو بستیوں کو تیاگ دو
اسی راہ خانہ خراب میں مجھے دیکھنا
کسی رات ماہ و نجوم سے مجھے پوچھنا
کبھی اپنی چشم پورب میں مجھے دیکھنا
اسی دل سے ہو کر گزر گئے کئی کارواں
کی ہجرتوں کے زب میں مجھے دیکھنا
میں نا مل سکون بھی تو کیا ہوا کے فسانہ ہوں
نئی داستاں نئے باب میں مجھے دیکھنا
میرے خر خر سوال میں مجھے ڈھونڈنا
میرے گیت میں میرے خواب میں مجھے دیکھنا
میرے آنسوؤں نے بجھائی تھی میری تشنگی
اسی برگزیدہ صاحب میں مجھے دیکھنا
وہی اک لمحہ دید تھا کے رکا رہا
میرے روز و شب کے حساب میں مجھے دیکھنا
جو تڑپ تجھے کسی آئینے میں نا مل سکے
تو پھر آئینے کے جواب میں مجھے دیکھنا
نا غبار میں نا گلاب میں مجھے دیکھنا
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ