قلب مضطرب ٹھہر لمحہ بھر کے لیے

قلب مضطرب ٹھہر لمحہ بھر کے لیے
اسکی رخصت کا ہنگام درپیش ہے
وصل شہروں سے گل رنگ ماحول میں
ایک کہانی کو انجام در پیش ہے
آخری بار جی بھر کے میں دیکھ لوں
کیا خبر پھر کبھی ہم ملیں نا ملیں
شاخ فردا سمر بار ہو کے نا ہو
کس کو معلوم پھر گل کھلائیں نا کھلائیں
ایسی ساعت کہاں ایسا منظر کہاں
رنگ ہے رنگ ہے روپ ہے روپ ہے
چاہو آنچل کی لے لوں گھڑی دو گھڑی
پھر سفر در سفر دھوپ ہے دھوپ ہے . . . !

Posted on Jun 04, 2012