شاید میں زندگی کی سحر لے کے آ گیا ،
قاتل کو آج اپنے ہی گھر لے کے آ گیا ،
تا عمر ڈھونڈتا رہا منزل میں عشق کی ،
انجام یہ کے گرد سفر لے کے آ گیا ،
نشتر ہے میرے ہاتھ میں کندھوں پہ میکدہ ،
لو میں علاج درد جگر لے کے آ گیا ،
فاخر صنم کدے میں نا آتا میں لوٹ کر ،
ایک زخم بھر گیا تھا ادھر لے کے آ گیا . . . !
Posted on Apr 23, 2012
سماجی رابطہ