شہرِ خیال و خواب میں آباد ہو گیا،
اِتنا اُسے پڑھا کے مُجھے یاد ہو گیا
میں آج تک ہوں جِس کے فریب و حِصال میں
وہ اور ہی کسی کا میرے بعد ہو گیا
آندھی ہوا کا ساتھ نِبھانے کے شوق میں
کوئ تباہ ہوا کوئ برباد ہو گیا
اپنی تو ساری عُمر اسیری میں کٹ گئ
جِس نے بھی ہار مان لی آزاد ہو گیا
پہلے تو پانیوں سے رہی گُفتگو میری
پھر یُوں ہُوا کہ آئنہ اِیجاد ہو گیا
Posted on Jan 10, 2013
سماجی رابطہ