وہ سامنے آئی تو نظروں کو جھکا لوں گا

وہ سامنے آئی تو نظروں کو جھکا لوں گا
دیکھوں گا نہیں پھر بھی تصویر بنا لوں گا

آنا ہے تو آجاؤ رسوائی نہیں ہو گی
دیکھے گا نہیں کوئی پلکوں میں چُھپا لوں گا

جو ہم پر گزرنی ہے ایک بار گزر جائے
ہر غم کی طرح تجھ کو سینے سے لگا لوں گا

ویران گر دل ہو آنکھوں میں اندھیرا ہو
یادوں کے دیے اپنی پلکوں میں سجا لوں گا

منظور گر ہو گی رسوائی تیری مجھ کو
میں بیٹھ ساحل سے طوفان اٹھا لوں گا

ناراض گر وہ ہیں میری نشیمن سے
میں نشیمن کے تنکوں کو ہٹا دوں گا

کیوں مجھ سے خفا ہو کر وہ دور گئی
بانہوں میں وہ آجائے میں ان کو مانا لوں گا

Posted on Jun 25, 2012