یہاں لہروں نے ساحل سے جدا ہونا ہی تھا

یہاں لہروں نے ساحل سے جدا ہونا ہی تھا
جس طرح ہم نے چاہا اس طرح ہونا ہی تھا

ریزہ ریزہ ہو کر بکھرا فضاؤں میں بدن
چاندنی کی چاھ میں یہ حادثہ ہونا ہی تھا

حدوں سے گزر کر ہم نے پوجا تھا جنہیں
ان حسین لوگوں نے آخر دیوتا ہونا ہی تھا

عمر بھر دل شاد رہتا ترک الفت پے میرا
ایک بار تو وہ پوچھتا اگر بیوفا ہونا ہی تھا

ہیں مندمل اب چاہتوں کے وہ زخم
جل کے دل کی راکھ نے آخر دوا ہونا ہی تھا . . . !

Posted on May 03, 2012