پلکوں پہ رکی بوند بھی رونے کو بہت ہے
اک اشک بھی دامن کے بھگونے کو بہت ہے
یہ واقعہ ہے دل میں میرے تیری محبت
ہونے کو بہت کم ہے ، نا ہونے کو بہت ہے
پھر کیا اسی تاریخ کو دھراؤ گے قاتل
نیزے پہ میرا سر ہی پیرونے کو بہت ہے
کس طرح سے باطن پہ چڑھی میل اتاریں ؟
جو زخم بدن پر ہے وہ دھونے کو بہت ہے
اب سامنہ طغیانی دریا کا ہے محسن
اک لہر بھی کشتی کے ڈبونے کو بہت ہے
Posted on Oct 15, 2011
سماجی رابطہ