یوں ہی امید دلاتے ہیں زمانے والے
کب پلٹتے ہیں بھلا چور کے جانے والے !
تو کبھی دیکھ جھلستے ہوئی صحرا میں درخت
کیسے جلتے ہیں وفاؤں کو نبھانے والے
ان سے آتی ہے تیرے لمس کی خوشبو اب بھی
خط نکالے ہوئی بیٹھا ہوں پُرانے والے
کچھ تو آنکھوں کی زبانی بھی کہے جاتے ہیں
منہ سے نہیں ہوتے سب راز بتانے والے
آ کبھی دیکھ ذرا ان کی شبوں میں آ کر !
کتنا روتے ہیں زمانے کو ہنسانے والے
آج بہزاد ستارہ ہے نا جگنو کوئی !
رابطے ٹوٹ گئے ان سے ملنے والے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ