زمانے بھر کے نگاہوں میں جو خدا سا لگے
وہ اجنبی ہے مگر مجھ کو آشْنا سا لگے
نا جانے کب میری دنیا میں مسکرائے گا
وہ اک شخص کہ خوابوں میں بھی خفا سا لگے
عجیب چیز ہے یاروں یہ منزلوں کی ہوس
کہہ رہزن بھی مسافر کو رہنما سا لگے
دل تباہ ! تیرا مشورہ کیا کہ مجھے
وہ پھول رنگ ستارہ بھی بے وفا سا لگے
ہوتی ہے جس سے منور ہر اک آنکھ کی جھیل
وہ چاند آج بھی محسن کو کم نما سا لگے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ